پاکستان کے نصابِ تعلیم میں جب کے جی جماعت کے معصوم بچوں کے لیے اردو کی کتاب ڈھالی گئی،
تو نصاب مرتب کرنے والے حضرات نے جب حرفِ “ڈ” پر نگاہِ التفات ڈالی،
تو حیرت ہے کہ ان کے علم و فکر کے ڈھیر میں کوئی ایک خالص اردو لفظ بھی نہ ڈھونڈا جا سکا۔
یوں انہوں نے اپنی سہل پسندی کا ڈھکوسلا کر کے ڈاکٹر جیسے غیرملکی لفظ پر ڈیرہ ڈال دیا۔

اب یہ کہنا لازم ہے کہ "ڈاکٹر" تو اردو کا لفظ ہے ہی نہیں۔
یہ تو اجنبی زبان کی ڈھب پر رکھا گیا وہ لفظ ہے
جس نے اردو کی لطافت پر ڈاک ڈال دی۔
اردو میں تو صدیوں سے "طبیب" جیسا خوش‌نوا اور پاکیزہ لفظ ڈھیروں معنی و مٹھاس سمیٹے بیٹھا ہے۔

کاش نصاب بنانے والے حضرات ذرا سا ڈھونگ چھوڑ کر اردو کی جڑوں میں ڈول ڈالتے،
تو انہیں پتا چلتا کہ "ڈ" کے لفظوں کا خزانہ تو کسی ڈھیرے یا ڈبے میں بند نہیں،
بلکہ ہر زبانِ اردو کے لب پر ڈولتا ہے۔
کبھی ڈبہ، کبھی ڈبیا، کبھی ڈول، کبھی ڈھول، کبھی ڈھال، کبھی ڈیرے کی ڈیوڑھی،
اور کبھی کسی ڈبڈباتی آنکھ کی نمی —
سب "ڈ" کے جواہر ہیں جو خود بخود چمکنے لگتے ہیں۔

لیکن افسوس، تعلیم کے ڈھانچے میں بیٹھے ہوئے یہ ڈھیلے دماغ اس حسن کو ڈھونڈنے سے قاصر رہے۔
انہوں نے اردو کے گلدستے سے خوشبو ڈال دی
اور غیر زبان کے لفظ کو علم کے گلشن میں ڈال کر معصوم ذہنوں کی معصومیت پر ڈھکن رکھ دیا۔

اب دل چاہتا ہے کہ علم و ادب کی ڈھولکی بجا کر اور الفاظ کی ڈگڈگی پیٹ کر پکارا جائے
کہ صاحبانِ نصاب! "ڈ" کا ڈھیر اردو کی دہلیز پر بکھرا ہے۔
بس دل میں ڈھونڈنے کا جذبہ ہو تو یہ خزانے خود بخود ڈھل پڑتے ہیں۔

سو میں نے یہ ڈبڈبائی ہوئی تحریر،
بغیر کسی قاصد، پیام بر یا ڈاک خانے کے،
دل سے نکال کر آپ کی ڈیوڑھی پر ڈال دی ہے،
کہ شاید یہ ڈھیر الفاظ نصاب کی ڈھال بن جائیں،
اور اردو کے ماتھے سے یہ ڈاکٹری دھبہ آخرکار ڈھل جائے۔