ابوجان اکثر شام کے سناٹے میں ایک نہایت لرزہانگیز قصہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک ویران قبرستان میں ایک بدنہاد، سفلی خصلت انسان نے تاریکیِ شب میں ایک بےکس و بےجان نعش کے ساتھ بدفعلی کا ارتکاب کیا۔
یہ ظلمت خیز فعل جب سرزد ہوا تو قدرتِ کاملہ نے اس کے لیے ایک عجیب و غریب انجام مقدر کر رکھا تھا۔
زمانے کا بادشاہ نہایت صالح، نیکسیرت اور متقی مزاج تھا۔ ایک رات اس کے خواب کی لطیف دنیا میں ایک نورانی، سفید پوش بزرگ جلوہگر ہوئے اور نہایت جلال و وقار سے فرمانے لگے:
"فلاں مقام پر ایک شخص نہایت کریہہ و شنیع گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسے فوراً گرفتار کر کے دربارِ شاہی میں پیش کرو اور اُسے مشیرِ خاص کے عہدے پر فائز کر دو۔"
بادشاہ ساعت بھر کے لیے سناٹے میں آگیا۔ اس نے خواب ہی میں اُن سے استفسار کیا کہ آخر ایسے شقی و فاسق شخص کو منصبِ مشیری پر متمکن کرنے کا کیا سبب ہے؟ مگر جواب ملنے سے پیشتر خواب کی کڑی ٹوٹ گئی، اور بادشاہ تذبذب کے سمندر میں غرق رہ گیا۔
بہرحال، شاہی سپاہ روانہ ہوئی اور جائے وقوعہ پر جا پہنچی۔ مجرم وہیں موجود تھا۔ سپاہیوں کو آتا دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے، رنگ فق ہوگیا، اور اسے یقین ہو گیا کہ اب موت کا پروانہ صادر ہوا چاہتا ہے۔
جب وہ لرزتا کانپتا بادشاہ کے حضور لایا گیا تو بادشاہ نے نہایت سکون سے اس کے فعل کی شناعت بیان کی اور فرمایا:
"آج سے تم ہمارے مشیرِ خاص ہو۔"
مجرم تو حیرت کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاتا، مگر اصل راز ابھی پردۂ غیب میں تھا۔
اگلی شب بادشاہ کے خواب میں پھر وہی سفید پوش بزرگ نمودار ہوئے۔ بادشاہ نے فوراً مودبانہ سوال کیا:
"اے صاحبِ نور! ایک ایسے زانی و فاجر کو عزت و منصب دینے کی کیا حکمت تھی؟"
تو سفید پوش نے یوں ارشاد فرمایا:
"اس کا گناہ باری تعالیٰ کے نزدیک نہایت مکروہ و قبیح ٹھہرا۔ چونکہ اس کی موت کی گھڑی ابھی مقدر نہ تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ اسے ظاہری عزت دے دی جائے۔ تاکہ وہ عیش و عشرت میں غرق رہے، کبھی نادم نہ ہو، توبہ کی طرف رجوع نہ کرے۔ اس کی سزا آخرت کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے۔ دنیا میں اسے سہولت و فراخی اس لیے دی گئی کہ وہ گمراہی میں ڈوبا رہے اور کبھی پلٹ کر روشنی کی طرف نہ آ سکے۔"
یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔
صبح ابوجان نے یہ حکایت سنا کر میرے سر پر دستِ شفقت رکھا اور فرمایا:
"بیٹا… جب گناہوں پر آسانی اور راستے کھلے ملنے لگیں، سمجھ لینا کہ آسمانی دروازے بند ہونے لگے ہیں۔ توبہ کی توفیق سلب ہو رہی ہے۔ یہ سب سے بڑا عذاب ہے۔"
میں یہ سنتے ہی لرز اٹھا۔ نظر اپنے گریبان میں دوڑائی، پھر اطراف میں۔
کیا آج ہم اسی آزمائش میں مبتلا نہیں؟
ہمیں بار بار گناہوں کے مواقع میسر آتے ہیں، وہ بھی نہایت آسانی اور بےخوفی کے ساتھ۔
دل پر کوئی چوٹ نہیں پڑتی۔
ضمیر بےحس، نظر بےشرم، روح بےنور ہو جاتی ہے۔
پہلی بار گناہ ہوتا ہے تو دل دھڑک دھڑک کر سینہ توڑنے لگتا ہے،
ہاتھ کانپتے ہیں،
روح چیخ چیخ کر منع کرتی ہے،
اصل ایمان جھنجھوڑ کر کہتا ہے: "باز آ جاؤ!"
مگر دوسری بار یہی ٹیس کم ہو جاتی ہے۔
تیسری بار گم ہو جاتی ہے۔
چوتھی بار گناہ مشغلہ بن جاتا ہے—عادت، مزاج اور پھر فخر۔
پھر انسان مست رہتا ہے، خوش رہتا ہے، مگر افسوس…
اوپر والا اس سے اپنا تعلق منقطع کر لیتا ہے۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار، نرم، آسان اور خوشنمائی سے بھرا ہوا ہوتا ہے،
لیکن یہی وہ راہ ہے جو انسان کو اندھے کنویں میں لے جاتی ہے۔
نیکی کی فصل یوں نہیں اگتی۔
اس کے لیے محنت درکار ہے، نگہبانی ضروری ہے،
جیسے کھیت میں گندم نہیں اگتی جب تک کسان مشقت نہ کرے۔
مگر جھاڑیاں، کانٹے، زہریلی گھاس… خود بخود اگ آتی ہیں اور زمین کو بنجر کر دیتی ہیں۔
دل کی زمین بھی یہی ہے۔
گناہ کی جھاڑیاں خود بخود اگتی ہیں۔
نیکی کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، خود کو روکنا پڑتا ہے، نفس کو لگام دینا پڑتی ہے۔
خدا کے لیے…
اس لعنت سے بچو۔
اس میں پڑ جانا کمال نہیں،
اس سے باز رہنا اصل کمال ہے۔
حیا کا اٹھ جانا، ایمان کے رخصت ہونے کی پہلی علامت ہے۔
خدا ہم سب کو ہدایت و استقامت عطا فرمائے۔
آمین۔

