کہتے ہیں کہ عہدِ کہن میں دور افتادہ وادی میں ایک نہایت خاموش اور گوشہگزیں بستی آباد تھی۔
اس بستی کے باسی ہمیشہ اضطراب و اندیشے کے گرداب میں گھرے رہتے تھے، اس لیے کہ ہر سال ایک ہیبت ناک، سفاک اور سفّاکی میں بیباک دیو اُس بستی پر نازل ہوتا اور للکار کر پکار اٹھتا:
"اے کمہمّتی کے مارو! کیا کوئی مردِ میدان ہے جو میرے روبرو آ کھڑا ہو؟ کیا کوئی سَر پھِرا ہے جو مجھ سے پنجہ آزما ہونے کی جرأت رکھتا ہو؟"
اور یوں یہ دیو ہر سال کسی نہ کسی بدنصیب انسان کی جان بُجھا لیتا۔
اسی نحوست زدہ دن، جب دیو کے وارد ہونے کا یومِ موعود تھا، سارا گاؤں سہم کر اپنے گھروں میں دُبکا بیٹھا تھا۔
ان ہی لمحات میں ایک مردِ غازی، ایک جانباز مجاہد، اتفاقاً اس گاؤں میں جا پہنچا۔ وہ دیکھتا ہے کہ فضاء میں مرگھٹ کی سی خاموشی ہے، چہروں پر پریشانی کی سیاہی ہے اور بستی کی فضا سوگوار۔
غازی نے استفسار کیا:
"اے اہلِ بستی! یہ کیا ماجرا ہے کہ ہر سمت مردنی طاری ہے؟ تمہارے چہروں پر ایسی پژمردگی کیوں ہے؟"
لوگوں نے رقت بھری آواز میں حقیقتِ حال سنائی:
"ہر سال ایک خونخوار دیو آتا ہے، مقابلے کے لیے ایک مردِ میدان مانگتا ہے اور پھر اُسے بے دردی سے ہلاک کر ڈالتا ہے۔ آج بھی وہی منحوس دن ہے۔"
غازی نے پوچھا:
"اس برس تم نے کس بدنصیب کو دیو کے آگے پیش کرنے کا تہیہ کیا ہے؟"
گاؤں والوں نے ایک نحیف و نزار، کمزور و شکستہ نوجوان کو آگے کر دیا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ نہ تو مقابلے کی سکت رکھتا ہے، نہ ہی جنگ کے آداب سے آشنا ہے۔
غازی نے اُسے دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا اور نہایت استقامت سے کہا:
"نہیں! اس مرتبہ یہ دیو کسی بےقصور کی جان نہ لے سکے گا۔ میں خود میدان میں اُترتا ہوں۔ دیکھیں اس خبیث میں کتنی تاب و طاقت باقی ہے۔"
اس کی جری ہمت دیکھ کر بستی والوں کے دلوں میں امید کی کونپلیں پھوٹ پڑیں۔ وہ جو برسوں سے مایوسی کے اندھیرے میں مبتلا تھے، اس دن پہلی بار انہیں نجات کی جھلک دکھائی دی۔
غازی میدان میں جا بیٹھا اور دیو کے ظہور کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں افق پر ایک مہیب سایہ نمودار ہوا،
ایک دیو جس کی قامت گویا فلک بوس، جس کی ہیبت پہاڑوں کی چٹانوں کو لرزا دے۔ وہ ہاتھ میں تلوار تھامے للکار رہا تھا:
"کہاں ہیں وہ جوانمرد؟ کیا کوئی ہے جو مجھ سے ٹکرائے؟ یا تم سب بزدل پیدا ہوئے ہو؟"
گاؤں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ غازی کے دل میں بھی ایک لمحے کو کھٹکا پیدا ہوا، مگر فوراً اس نے نامِ خدا لیا، حوصلہ مجتمع کیا اور آگے بڑھ کر پکارا:
"ہاں! ایک مرد موجود ہے، اور وہ میں ہوں۔ آ، دیکھتے ہیں اصل تسلّی کس کے نصیب میں لکھی ہے!"
یہ کہتے ہی غازی للکار کر دوڑا اور دیو بھی غیظ و غضب سے اس کی طرف لپکا۔
مگر عجیب ماجرا ہوا،
جوں جوں غازی آگے بڑھتا گیا، دیو کی جسامت سکڑتی چلی گئی۔
جو دیو پہلے آسمان کی چوٹی کو چھو رہا تھا، وہ چند قدم بعد ہاتھی کے برابر رہ گیا؛
پھر انسانی قامت تک گر آیا؛
پھر بچّے کے قد تک سمٹ گیا؛
اور جب وہ بالکل قریب پہنچا تو وہ ایک معمولی سے مینڈک کے برابر رہ چکا تھا۔
غازی نے ایک ہی وار میں اسے چیر کر رکھ دیا۔ جھک کر پوچھا:
"اے خبیث! یہ کیونکر ممکن ہوا کہ ابھی ابھی تو تو فلک کو چھوتا تھا، اور اب یوں ذلیل و خوار میرے قدموں میں پڑا ہے؟"
دیو نے آخری سانسوں میں لرزتی ہوئی آواز میں کہا:
"میں کچھ نہیں… میں صرف انسان کے دل کا خوف ہوں۔
جتنا وہ مجھ سے ڈرتا ہے، میری ہیبت اتنی بڑھتی جاتی ہے۔
اور جب وہ ہمت و یقین کے ساتھ میری طرف دوڑتا ہے، تو میں خود بخود سمٹ کر معدوم ہو جاتا ہوں۔"
تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں
خوف اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا بڑا تم اُسے اپنے دل میں جگہ دیتے ہو۔
انسان جب یقینِ کامل، حوصلۂ جَمیل اور جرأتِ صادقہ کے ساتھ اپنے خوف کا سامنا کرے،
تو بڑے سے بڑا دیو بھی ایک معمولی کیڑے کے برابر رہ جاتا ہے۔
اور جب انسان ڈر کے آگے سر جھکا دے،
تو یہی خوف اس کی طاقت چھین لیتا ہے،
اس کے عزم کو کھوکھلا کر دیتا ہے،
اور اس کے وجود کو لرزہ براندام کر دیتا ہے۔

