قیامِ پاکستان کے بعد جب نوزائیدہ مملکت ابھی اپنے پاؤں جمانے کی جستجو میں تھی، اُس وقت سب سے نازک مرحلہ دفاعِ وطن کا درپیش تھا۔
 نہ کوئی منظم فضائی ادارہ، نہ طیارہ ساز انجینئر، نہ ماہر پائلٹ، نہ سازوسامانِ پرواز،
             فقط دو تین تربیت یافتہ افسروں اور چند شکستہ پرندوں (جہازوں) کے سہارے ایک خوابِ استقلال کی حفاظت لازم تھی۔

اُس پُرآشوب ساعت میں وزیرِاعظمِ وقت، نوابزادہ لیاقت علی خاں مرحوم نے ایک ایسا دور اندیشانہ اور جری فیصلہ صادر فرمایا، جس نے آنے والے عشروں میں پاکستان فضائیہ کو افلاک پیمائی کا ہنر بخشا۔

آغازِ سفر: پولستانی شہبازوں کی آمد

نوابِ لیاقت نے پولستان (Poland) کے اُن جانباز ہوا بازوں کو بلاوا بھیجا جو دوسری جنگِ عظیم میں نازی افواج کے خلاف شجاعت و فطانت کے مینار ثابت ہوئے تھے۔
        انہی میں ایک نام ولادیسلاف تورووچ (Władysław Turowicz) کا تھا، وہ مردِ حوصلہ جس نے آگ و خون کے دریا عبور کیے اور بالآخر ارضِ پاک میں آ کر شاہینوں کو پرواز کا ہنر سکھایا۔

تورووچ اپنی رفیقۂ حیات زوفیہ تورووچ کے ہمراہ 1948ء میں کراچی پہنچے۔
 ان کے ساتھ چند دیگر پولستانی ماہرین بھی آئے جنہوں نے پاکستان ایئر فورس کے ابتدائی ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔

ولادیسلاف تورووچ،
                وہ معلمِ پرواز جس نے شاہینوں کو آسمان کا راستہ دکھایا

تورووچ کو چیف ٹیکنیکل آفیسر مقرر کیا گیا۔ ان کی زیرِ نگرانی پاکستان فضائیہ نے تکنیکی انضباط، عملی تربیت، اور سائنسی بصیرت کے تینوں ستونوں پر اپنی عمارت استوار کی۔
انہوں نے کراچی کی ڈرگ روڈ بیس (موجودہ پی اے ایف بیس فیصل) پر جہاز سازی و انجینیئرنگ اسکول قائم کیا، جس نے بعدازاں سینکڑوں ماہرینِ پرواز اور مکینکس پیدا کیے۔

اسی مردِ دانا نے بعد میں سپارکو (خلائی تحقیقاتی ادارہ) کی بنیاد رکھی۔ انہی کی کاوش سے 1962ء میں پاکستان کا پہلا ساؤنڈنگ راکٹ آسمان کی وسعتوں میں روانہ ہوا،
                  گویا ایک غیر ملکی ماہر نے پاکستان کے فضائی و خلائی خواب کو حقیقت کا جامہ پہنایا۔

پولستانی ماہرین کا فیضان

تورووچ کے ہمراہ جارج لینکوسکی، انتونیو ژیوک اور وکٹور سینسکی جیسے فضائی معماروں نے اپنی فنی بصیرت سے وہ کارنامے انجام دیے جن پر آج بھی پاکستان کی تاریخ نازاں ہے۔
محض پانچ برس میں وہ فضائیہ، جو 1947ء میں فقط چند پرانے پرندوں پر منحصر تھی، 1965ء تک منظم، مدبر اور معرکہ آرا قوت میں تبدیل ہو چکی تھی۔

وہ فیصلہ جس نے تقدیر بدل دی

اگر نوابِ لیاقت علی خاں یہ بصیرت افروز قدم نہ اٹھاتے تو شاید پاکستان فضائیہ کئی دہائیاں تاخیر کا شکار رہتی۔
یہی تربیت اور نظم تھا جس نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاکستانی شاہینوں کو وہ جلال و جرات عطا کی جس پر دشمن بھی عش عش کر اٹھا۔

مشہور فضائی مورخ جان فریڈرک نے لکھا:

> “Pakistan Air Force proved to be a disciplined, scientifically trained and technically proficient force punching far above its weight.”
(یعنی پاکستان فضائیہ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ایسی مہارت و تنظیم کا مظاہرہ کیا جو بڑے بڑے ملکوں کے لیے باعثِ رشک تھی۔)

آج کی بازگشت میں وہی صدائے ماضی

آج جب سنہ 2025ء میں پاکستانی شاہین JF-17، F-16، اور جدید طیاروں کے ساتھ برق رفتاری سے افلاک نوردی کرتے ہیں، تو ان کی ہر پرواز میں 1948ء کے اُس فیصلے کی روح سانس لیتی ہے۔
یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک عبرت آموز حکایت ہے،
           کہ بصیرت مند قیادت کا ایک فیصلہ صدیوں کی سمت متعین کر دیتا ہے۔

درودِ تحسین اُن رہنماؤں اور معماروں پر

سلام اُن رہنماؤں پر جنہوں نے قوم کو پر عطا کیے،
اور سلام اُن پولستانی استادوں پر جنہوں نے اُن پروں کو پرواز کی قوت بخشی۔
اگر نوابِ لیاقت علی خاں کی نگاہِ دور رس نہ ہوتی،
تو شاید آج افلاک پر شاہینوں کی یہ رفعت و رعنائی نصیب نہ ہوتی۔

مرتب: فاروقِ عمر کے مضمون سے ماخوذ،
تدوینِ تحریر: بقلم صوفی بھائی