تدوین: صوفی
زیارت کی نسیمِ صبح ابھی مضمحل نہ ہوئی تھی،
کہ فضا میں ایک غیرمرئی اداسی تیرنے لگی۔
قائدِ ملت، محمد علی جناح، جنہیں اہلِ نظر نے ہمیشہ فولادِ عزم و آہنِ ارادہ کہا، اس روز غیرمعمولی خاموش تھے۔
ان کے لبوں سے بمشکل یہ الفاظ نکلے:
“فاطمی! اب زیست سے دل اُچاٹ ہو گیا ہے۔ جتنا جلد اس عالمِ فانی سے گزر جاؤں، اتنا ہی بہتر ہے۔”
یہ جملہ گویا لوحِ تقدیر پر ثبت ہو گیا۔
ان آنکھوں میں جو کبھی ایک قوم کی اُمنگیں سموتی تھیں، اب نمی اتر آئی تھی۔ وہ جنہیں زمانہ جذبات سے عاری سمجھتا تھا، آج موم کی طرح پگھل رہے تھے۔
طبیب خاموش تھا، لیکن دل جان چکا تھا کہ جب کوئی مردِ آہن خود زندگی سے اعراض کر لے، تو تدبیر کی کوئی صورت کارگر نہیں رہتی۔
ستمبر کا مہینہ تھا۔
زیارت کے در و دیوار بیماری کی آہٹوں سے لرزیدہ تھے۔
نمونیا، تب دق، اور سرطانِ شُش،
تینوں آفتیں ایک ہی جسمِ نحیف پر جمع ہو چکی تھیں۔
بخار مسلسل سدرجہ، نبض بےربط، اور سانسیں آکسیجن کی مرہونِ منت۔
وزن گویا محض ہڈیوں کا توازن رہ گیا تھا۔
ڈاکٹر مستری کو کراچی سے طلب کیا گیا۔ معائنہ کر کے بس اتنا کہا:
“اب دوا نہیں، دعا درکار ہے۔”
مسٹر جناح نیم بےہوشی میں بڑبڑائے:
“کشمیر کمیشن سے آج ملاقات تھی... وہ کیوں نہ آئے؟”
یہ جملہ دراصل ان کے دل میں دبی ہوئی وہ آخری تڑپ تھی جو ملت کے مستقبل سے وابستہ تھی۔
چونکہ مزید قیام ممکن نہ تھا،
فیصلہ ہوا کہ انھیں واپس کراچی پہنچایا جائے۔
گیارہ ستمبر 1948ء کی دوپہر، طیارہ "ڈکوٹا" زیارت کے افق سے بلند ہوا۔
اسٹریچر پر لیٹے جناح صاحب نے نحیف ہاتھ سے عملے کی سلامی کا جواب دیا۔
فاطمہ جناح، ڈاکٹر مستری اور نرس سسٹر ڈنہم ہمراہ تھیں۔
آکسیجن سلنڈر جہاز کے پہلو میں رکھا گیا۔
دو گھنٹوں کی پرواز کے بعد طیارہ ماڑی پور کے ہوائی مستقر پر اترا۔
یہ وہی مقام تھا جہاں ایک برس پیشتر ہزاروں لبوں سے "زندہ باد" کے نعرے بلند ہوئے تھے، مگر آج وہاں صرف خاموشی تھی۔
بابائے قوم کی آمد کو راز میں رکھا گیا تھا۔
رن وے پر ایک فوجی ایمبولینس منتظر تھی۔
جناح صاحب کو اسٹریچر سمیت اس میں رکھا گیا۔
چند میل کا سفر طے ہوا ہی تھا کہ انجن ہانپ کر رک گیا۔
فاطمہ جناح گھبرا کر باہر نکلیں۔
ڈرائیور نے دھیمی آواز میں کہا:
“بی بی، پٹرول ختم ہو گیا ہے…”
یہ سن کر فضا میں جیسے موت کی سی خاموشی چھا گئی۔
دھوپ کی شدت ناقابلِ برداشت تھی۔
گرم ہوا جسموں کو جھلسا رہی تھی۔
مکھیاں بابائے قوم کے چہرے پر منڈلا رہی تھیں۔
ان کے بازو میں اتنی قوت بھی نہ تھی کہ انھیں ہٹا سکیں۔
فاطمہ جناح اور سسٹر ڈنہم باری باری ہاتھ کا پنکھا جھلنے لگیں۔
ہر لمحہ ایک قیامت بن کر گزر رہا تھا۔
ڈاکٹر مستری پیچھے کیڈلک میں تھے، دوڑے آئے، نبض دیکھی،
دل ڈوبنے لگا۔
وہ گاڑی سے گرم چائے لائے، لبوں سے لگائی۔
یہ لمحہ تاریخ کے دامن پر ایک دائمی داغ بن گیا،
قائدِ ملت، وہی شخص جس نے قوم کو وطن بخشا، آج اسی وطن کی سڑک پر ایک ناکارہ ایمبولینس میں دم توڑنے کو تھا۔
قریب ہی مہاجروں کی جھونپڑیاں تھیں۔
کسی کو خبر نہ تھی کہ جس مردِ مومن نے ان کے لیے دیار تراشا، وہ آج انھی کے بیچ بے یار و مددگار پڑا ہے۔
راہ سے گزرتی گاڑیاں شور مچاتے نکل جاتیں، مگر کسی کو یہ احساس نہ تھا کہ اس خاموش گاڑی میں پاکستان کی روح سمٹی بیٹھی ہے۔
بالآخر ایک اور ایمبولینس آئی۔
قائد کو گھر پہنچایا گیا۔
چند گھنٹے کے لیے سکون نصیب ہوا۔
پھر آہستہ سے آواز آئی:
“فاطمی…”
مس جناح قریب جھکیں، تو سر دائیں جانب لڑھک گیا۔
سانس تھم چکی تھی۔
فاطمہ جناح کی چیخ فضا میں بکھر گئی۔
ڈاکٹر مستری لپک کر آئے، مگر بابائے قوم دارِ فانی سے کوچ کر چکے تھے۔
چند لمحوں بعد سفید چادر سے وہ چہرہ ڈھانپ دیا گیا۔
جس کی روشنی سے ایک ملت منور ہوئی تھی۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح
11 ستمبر 1948، شب 10 بجکر 20 منٹ۔
اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
اگلے روز ایک سادہ کفن میں لپیٹ کر انھیں کراچی ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔
نہ علاج کے لیے بیرونِ ملک گئے، نہ قومی خزانے پر بوجھ ڈالا۔
وہ آئے،
قوم کو وجود دیا،
اور چپکے سے رخصت ہو گئے۔
یہی ان کی عظمت کی معراج تھی،
سادگی میں شاہی،
خاموشی میں انقلاب۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

