تحریر: یوسف ارحم

شیرِ دکن، نوابِ عادل، سلطانِ عدل و انصاف شیر شاہ سوری کے عہدِ حکومت میں ایک نہایت عبرت خیز واقعہ پیش آیا۔


اٹاوہ کے قریب ایک راہ گزر پر ایک مردِ بدقسمت کی نعش پائی گئی۔ یہ مقام دو دیہات کی سرحد پر واقع تھا، اور دونوں بستیوں میں مدتوں سے زمین کے تنازعے نے رنجش کی آگ بھڑکائی ہوئی تھی۔


لاش برآمد ہوئی، مگر قاتل کا سراغ نہ ملا۔ ثبوت ندارد، گواہ ناپید۔


جب یہ خبر شاہِ ہند شیر شاہ تک پہنچی، تو اس نے وزرائے دانا و مشیرانِ عاقل کو تحقیقات پر مامور کیا۔ مگر ہر در بند، ہر سرا غائب۔ کوئی گواہی نہ ملی، کوئی نشان نہ ملا۔


بالآخر، بادشاہ نے اپنی فطری فراست و حکمت سے ایک تدبیر سوچی۔

دو نہایت ہوشیار سرکاری جاسوس بھیجے گئے کہ اس درخت کو کاٹ ڈالیں، جس کے نیچے مقتول کی لاش ملی تھی۔

ساتھ یہ حکم فرمایا کہ اپنی سرکاری حیثیت ظاہر نہ کرنا، اور اگر کوئی شخص مزاحمت کرے، تو فوراً جاگیردار کو اطلاع دینا اور مزاحم شخص کو دربارِ شاہی میں حاضر کرانا۔


چنانچہ جب جاسوسوں نے درخت پر کلہاڑی چلانی شروع کی، تو دونوں دیہات کے دو آدمی جھٹ وہاں آن پہنچے۔ ایک کہنے لگا،

"اے نادان! یہ درخت تو ہمارے گاؤں کا ہے، تم کون ہو جو اسے کاٹنے چلے ہو!"


دوسرے نے بھی یہی دعویٰ کیا، اور شور و غل برپا ہو گیا۔

جاسوسوں نے فوراً جاگیردار کو اطلاع دی، اور دونوں کو باندھ کر دربارِ شاہی میں پیش کیا گیا۔


شیر شاہ نے نہایت سکون و وقار سے دریافت فرمایا:

"جب یہ درخت تمہارے گاؤں کی حدود سے کچھ ہٹ کر تھا، تو تمہیں اس کے کاٹے جانے کی خبر فوراً کیسے ہو گئی؟

اور جب اسی درخت کے نیچے ایک بے گناہ کا خون بہایا گیا، تب تمہاری غیرت کیوں خاموش رہی؟"


پھر بادشاہِ عادل نے حکم صادر فرمایا:

"تین روز کی مہلت ہے۔ اگر اس مدت میں مقتول کا قاتل پیش کر دیا جائے تو تمہیں امان، ورنہ پورا گاؤں سزا کا مستحق قرار پائے گا۔"


اب ضمیر نے انگڑائی لی، خوف نے پردہ ہٹایا، اور سچائی نے زبان پائی۔

تین دن کے اندر قاتل خود اپنے انجام کو آن پہنچا۔

گاؤں والوں نے اسے باندھ کر بادشاہ کے حضور حاضر کیا، اور عدلِ شیر شاہ نے اس کے خونِ ناحق کا بدلہ لے لیا۔


یوں ایک لاوارث لاش کو انصاف ملا، اور شاہی تدبیر نے پھر سے عدل کے ترازُو کو قائم کر دیا۔

(ماخذ: تاریخِ داؤدی، صفحہ 13940)