مکتب کی فضا میں عجب سی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
استادِ محترم نے، جن کی داڑھی برف کی طرح سفید اور آواز گھنٹی کی مانند گمبھیر تھی، تختہِ سیاہ پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا:
“بچو! ذرا سچ سچ بتاؤ، تم لوگ مکتب سے رخصت ہو کر گھر جا کر کیا گل کھلاتے ہو؟”

یہ سن کر جماعت میں ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا، جیسے کسی نے بجلی کا بل دکھا دیا ہو۔
آخر پہلا شاگرد، جو خود کو نہایت معصوم سمجھتا تھا مگر حقیقت میں محلے بھر کا شیطانِ جُو والا بچہ تھا، نرمی سے بولا:

“حضور والا! میں مکتب سے گھر پہنچ کر سب سے پہلے والدہ ماجدہ کے دسترخوان پر ہاتھ صاف کرتا ہوں۔ اس کے بعد قیلولہ کی بَرکتیں سمیٹتا ہوں۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو میں گل خان کے ہاں چلا جاتا ہوں۔ جھوٹ نہیں بولوں گا جناب، وہاں سے دو عدد سگریٹ خریدتا ہوں، کش لگاتا ہوں، اور ہوا میں دو دُھندلے دائرے بنا کر گھر واپس آ جاتا ہوں۔”

استاد کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئیں، مگر شاید ابھی صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوا تھا۔
اب دوسرا شاگرد، جو اپنی آنکھوں کے نیچے نسوار کے نشان چھپانے میں ماہر تھا، عرض گزار ہوا:

“استادِ محترم! میں بھی آرام فرماتا ہوں، پھر اُٹھ کر گل خان کے یہاں پہنچتا ہوں۔ گٹکا خریدتا ہوں اور منہ میں ایسے رکھتا ہوں جیسے کوئی شہزادہ لُکُماتِ لذیذ کھا رہا ہو۔”

استاد نے چشمہ اُتارا، صاف کیا، اور پھر وہی چشمہ شاگرد پر چڑھا دیا۔

تیسرا شاگرد، جو دیکھنے میں شریف مگر کام میں لطیف تھا، بولا:
“قبلہ! میں بھی مکتب سے چھٹی پاتے ہی سیدھا گل خان کے ہاں جاتا ہوں۔ وہاں سے نسوار لیتا ہوں، اور یوں لطف اندوز ہوتا ہوں جیسے کوئی فلسفی ‘فکر و تدبّر’ میں مصروف ہو۔”

استاد کی آنکھوں میں بجلیاں کوندنے لگیں، مگر ضبط کے دامن کو تھامے رکھا۔

چوتھے شاگرد نے کمر سیدھی کی، رومال نکالا، ماتھا پونچھا، اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ گویا ہوا:
“حضور والا! میں مکتب سے واپسی کے بعد غسل کرتا ہوں تاکہ بدن و روح تازہ ہو جائیں، پھر اپنا سبق دہراتا ہوں، نمازِ عشا باجماعت ادا کرتا ہوں، اور رزقِ حلال کی جستجو میں نکل کھڑا ہوتا ہوں۔”

استاد کے چہرے پر چمک آ گئی، فرمایا:
“شاباش میرے فرزند! یہی تو اصل تربیت ہے۔ تم ہی اس جماعت کے چراغ ہو، تم ہی روشن مثال! بیٹے، تمہارا اسمِ گرامی کیا ہے؟”

شاگرد نے بڑی معصومیت سے سر جھکا کر عرض کیا:
“حضور، بندۂ ناچیز کا نام... گل خان ہے!”

یہ سنتے ہی استاد کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی، جماعت قہقہوں سے گونج اُٹھی، اور گل خان مسکراہٹ کے ساتھ بول اٹھا:
“استادِ محترم! رزقِ حلال تو وہی سگریٹ، گٹکا اور نسوار ہی تو ہے جو آپ کے شاگردوں سے میں ہی وصول کرتا ہوں!”

یوں مکتب کا درسِ اخلاق گل خان کے کاروباری راز پر تمام ہوا۔
استاد سوچ میں پڑ گئے — کہ اصلاح کی ضرورت شاگردوں کو ہے یا گل خان کو؟
اور جماعت ہنستے ہنستے وہ دن یاد کرتی رہی، جب سچ بولنے پر پہلی مرتبہ کسی کو داد بھی ملی اور دُھواں بھی اُٹھا۔