ادائے ابراہیمی

“فرزندِ عزیز! سعدیہ کی یہ فرمائش ہے کہ تم داڑھی منڈا دو، تبھی وہ عقد پر آمادہ ہوگی۔”

یہ کہتے ہوئے امِّ عمر نے اپنی چادر کا ایک گوشہ سنبھالا اور بیٹے کے قریب آ بیٹھیں۔


یہ خبر عمر کے قلب پر ایسی گری جیسے صاعقہ بر سینہٴ گلستان۔

ایک لمحے میں دل کی تمام کلیاں مرجھا گئیں، اور نگاہیں حیرت کی دھند میں ڈوب گئیں۔


“کیا ارشاد فرمایا آپ نے؟ یہ سعدیہ نے کہا؟”

عمر کی زبان پر کپکپی طاری تھی، گویا لفظ نکلنے سے انکاری ہوں۔

محبت کے عہد کے دن قریب تھے، اور محبوبہ کی زبان سے یہ بےرخی؟

دل پر ایسا زخم لگا جس کا مرہم خود صبر بن گیا۔


امِّ عمر نے آہِ سرد بھر کے فرمایا:

“ہاں بیٹا، مجھے بھی شبہ ہوا تھا، اسی لیے اس سے خود دریافت کر آئی ہوں۔

میری مانو تو اس کی بات مان لو۔ کیا ہے اس میں؟

آج کل کے زمانے میں تو لوگ روزگار کی خاطر سب کچھ تج دیتے ہیں،

یہ تو تمہاری زندگی کا معاملہ ہے۔

لڑکی خوبرو ہے، صاحبِ تعلیم ہے، نیک خاندان سے ہے، اور خود طبیبہ ہے۔

کیا کمی ہے اس میں؟ اب ضد نہ کرو فرزندِ دل بند!”


عمر کے لب خاموش، مگر نگاہیں کہانی سنانے لگیں۔

“امی جان! جب اس نے میرا رشتہ قبول کیا تھا،

تب یہی داڑھی چہرے پر تھی۔

اب اگر وقت کے ساتھ اُس کے خیالات نے آسمانوں کا راستہ پکڑ لیا ہے،

تو اس میں میرا کیا تقصیر؟”

یہ کہہ کر وہ گہری خاموشی میں ڈوب گیا۔


امتحانِ دل و دین


“ایک طرف دل ہے اور دوسری جانب ایمان۔

ایک سمت دنیا کے رنگین خواب ہیں،

اور دوسری طرف رب کی رضا کا اجالا۔

ایک راہ محبوب کی باہوں تک لے جاتی ہے،

اور دوسری، ہجر و صبر کے کانٹوں سے آراستہ ہے۔”


یہ جملے عمر کے لبوں سے نہ نکلے تھے،

بلکہ دل کے کسی نہاں گوشے سے صدائے فغاں بن کر اُٹھے تھے۔


پارک کی خاموش فضا میں وہ تنہا بیٹھا تھا۔

درختوں کی شاخیں جیسے اس کے غم کی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔

یہ وہ گھڑی تھی جب رب اپنے بندے کے ایمان کو تولا کرتا ہے 

جب دعوؤں کے قندیلوں کو عمل کی ہوا میں جلنا پڑتا ہے۔


عمر کی آنکھوں کے سامنے یادوں کا کارواں اُتر آیا۔

پہلی ملاقات، رشتے کی منظوری، دوستوں کی چھیڑ چھاڑ،

محبت کی وہ ابتدائی لذتیں — جو اب زہرِ ہلاہل بن چکی تھیں۔


“یہ داڑھی نہیں، یہ میری آخرت کا حصار ہے۔

یہ سنتِ مصطفیٰ ﷺ ہے، جس کے سائے میں ایمان پناہ لیتا ہے۔”

اس کے ہونٹوں پر لرزتے ہوئے آنسو موتیوں کی مانند ٹپکنے لگے۔


اسی لمحے فضا میں اذان کی صدا گونجی

“اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔۔”


عمر نے پلکیں موند لیں،

“ہاں، بےشک اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔

سب سے پہلے، سب سے برتر، سب خواہشوں سے مافوق۔”


پھر دل ہی دل میں بولا:

“آج مجھے بھی ایک بدر لڑنی ہے،

اور میرا میدان میرا دل ہے۔

آج اپنی خواہش پر چھری پھیرنی ہے،

اے معبودِ حقیقی! آج میں تیرا عاشقِ صادق بنوں گا۔”


> تم کیا جانو کہ ادائے ابراہیمی کیا ہے،

دلِ ناتواں کو رب کی رضا کے تلوار پر رکھ دینا۔


سعادت کی صبح (ایک سال بعد)


“آئیے نا، کھانا تناول کر لیجیے،”

آمنہ نے نرم آواز میں کہا۔


“ابھی کچھ کام ہے آمنہ، ایک ساعت بعد آتا ہوں۔”


“میں نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کھایا، چاہا کہ آپ کے ساتھ ہی کھاؤں۔”

آمنہ نے شرم و حیا سے نظریں جھکا لیں۔


عمر نے مسکرا کر کہا:

“کیا کہا؟ تم نے بھی کچھ نہیں کھایا؟ سبحان اللہ!

جنہیں بھوک ایک لمحہ برداشت نہیں ہوتی،

وہ آج تین گھنٹے ضبط کر گئیں؟”


دونوں کے درمیان محبت کی چمک پھیل گئی۔

آمنہ مسکراتی ہوئی کچن کی طرف روانہ ہو گئی،

اور عمر کے دل میں پرانی یادوں کی دھیمی لپک جاگی۔


صبر کا انعام


سعدیہ کے انکار کو ایک سال بیت چکا تھا۔

عمر نے محبوبہ اور سنت میں سے سنت کو چُنا تھا۔

دنیا والوں نے اسے مجنون کہا،

اقربا نے طعنے دیے،

لیکن اس کا قدم کبھی نہیں ڈگمگایا۔


قرآن اس کا رفیق بنا،

اور ذکر اس کا مرہم۔

سچ ہے، جس دل میں نماز اور ذکر کی رُت نہ ہو،

وہ دل بنجر ہو جاتا ہے۔


پھر رب نے اُس کے صبر کو مقبول کیا،

اور انعام میں آمنہ دی —

ایمان کی خوشبو میں بسی،

شرم و حیا میں لپٹی،

ایسی بیوی کہ جسے دیکھ کر دل کو قرار آ جائے۔


عمر اکثر سوچتا،

“گویا اللہ نے میری تمام تمناؤں کو ایک قالب میں ڈھال دیا ہے

اور اس کا نام آمنہ رکھ دیا ہے۔”


دوسری جانب سعدیہ تھی 

اب بھی غیرِ منکوحہ، غیرِ مطمئن۔

شاید وہ سمجھ نہ سکی کہ جس داڑھی کو اُس نے ٹھکرایا،

وہ محض چند بال نہ تھے،

بلکہ سنتِ رسول ﷺ کا علم تھا۔

اور جس نے سنت کو ٹھکرایا،

اس نے گویا اپنی قسمت کو ٹھکرایا۔


آج بھی بہت سے مسلمان

داڑھی، پردے اور دین کی علامات کا تمسخر اڑاتے ہیں،

اور خود کو مہذب کہتے ہیں،

مگر ان کے قلوب ویران ہیں۔

وہ نہیں جانتے کہ سکون

اُنہی دلوں کا مقدر ہے جو نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔


> نبی کے صحابہ کے رستے پہ چل کے

دلوں کا سکون ہم نے حاصل کیا ہے

لگا ہے نشہ جب سے جنت کا ہم کو

اُچاٹ اپنا جی اس جہاں سے ہوا ہے۔


ایک چراغِ نصیحت سمجھ کر آگے پہنچا دو 

شاید کسی دل میں ایمان کی لَو پھر سے جل اُٹھے۔ 🕯️