“میرا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا”
یہ وہ جملہ ہے جو اکثر والدین کی زبان پر یوں جاری ہوتا ہے
جیسے کوئی دعا ہو، مگر افسوس! یہ وہ پہلا ظلمِ بےنام ہے جو ہم اپنی نادان اولاد پر روا رکھتے ہیں۔
ارے صاحب!
کیوں نہ یوں کہا جائے کہ “میرا بچہ بڑا ہو کر صالح و نیک خو انسان بنے گا”؟
کیونکہ پیشہ تو محض روزی کا وسیلہ ہے،
اصل تو روح کی تہذیب اور اخلاق کا جلال ہے۔
اولاد کی تربیت کا آغاز کتابوں سے نہیں، کردار سے ہونا چاہیے۔
پہلے انھیں آدابِ زیست سکھائیے؛
کہ کھانے کو کس شائستگی سے تناول کرنا ہے،
کس نعمت کا کیا فائدہ ہے اور کس بےاحتیاطی سے بدن پر کیا وبال آتا ہے۔
صفائی، قرینگی، اور ذاتی سامان کی دیکھ بھال
یہ سب وہ گل ہیں جو اگر بچپن میں بو دیے جائیں،
تو جوانی میں سیرت کا گلزار بن جاتے ہیں۔
پھر جب بچہ ابتدائی تعلیم سے عہدہ برآ ہو،
تو اس کے فطری میلان کا اعتبار کیجیے۔
ہر نفس کی اپنی ایک نغمگی ہے،
کوئی نکتہ دانِ حکمت ہوتا ہے، کوئی صانعِ فن،
اور کوئی صرف محبِ خلوص۔
زود رنج نہ بنیے، اگر بچہ طبیب نہ بننا چاہے۔
زمانے میں وہ پراپرٹی ڈیلر بھی ہے جو طبیبِ مال بن کر ڈاکٹر سے زیادہ کما لیتا ہے۔
رزق کا مالک تو ربِ کائنات ہے،
انسان کا کام تو صرف صدقِ نیت اور محنتِ پیہم ہے۔
اولاد کو ایک زبان اچھی طرح سکھائیے
مگر اس کے ساتھ گفتار کا وقار اور بیان کا معیار بھی۔
ایسا نہ ہو کہ زبان تو سیکھ لے مگر لہجہ کھو دے۔
لفظ وہی معتبر ہے جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے۔
اور یہ وصف تب پیدا ہوتا ہے جب والدین خود اپنی گفتار میں وقار و تہذیب رکھتے ہیں۔
بچوں کو خود مختار بنایئے،
انہیں اپنے کاموں کا خوگر کیجیے
جوتے پالش کرنا، جیب خرچ کا حساب رکھنا،
گھر کے بڑوں سے حسنِ سلوک،
اور چھوٹوں سے شفقت
یہی وہ اعمال ہیں جن سے انسان کی بنیاد استوار ہوتی ہے۔
اولاد پر کیرئیر کا کوڑا مت برسایئے،
بلکہ ان کے دل کے بھید سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
ان سے بیٹھ کر ان کے دکھ سنیے، ان کے سوالوں کے جواب دیجیے۔
انہیں غلام نہ بنایئے، کہ غلامی سیرت کو مردہ کر دیتی ہے۔
اور خوف سے نہ دبایئے، کہ ڈرپوک دل کبھی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیتا۔
بچوں کو اعتماد کا جوش عطا کیجیے،
ان سے مشورہ لیجیے،
گھر کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں شریک کیجیے
کہ یہی شمولیت ان کے اندر حکمتِ عمل پیدا کرے گی۔
انھیں سمجھایئے کہ دنیا کے ہر تعلق کی ایک حد ہوتی ہے
استاد کا احترام کیا جائے مگر اندھی تقلید نہ ہو،
دوست سے محبت کی جائے مگر ضبط کے ساتھ۔
اولاد کو جن باتوں سے باز رکھنا مقصود ہو،
ان کے مضمرات کھول کر بیان کیجیے۔
اگر آپ محض “نہ کرو” پر اکتفا کریں گے،
تو وہ یہی سمجھیں گے کہ والدین کو بس اپنی بات منوانی ہے۔
یاد رکھیے !
نصیحت وہی مؤثر ہے جو عمل کے قالب میں ڈھلی ہو۔
پہلے خود عمل کیجیے، پھر نصیحت کیجیے۔
اور جب نصیحت کریں تو اس کے فوائدِ روحانی و دنیوی بھی ظاہر کیجیے۔
کامیاب و ناکام لوگوں کی مثالیں دیجیے،
مگر تدریج کے ساتھ
کہ نہ کوئی خوبی یک دم پیدا ہوتی ہے،
اور نہ کوئی خامی یک لخت مٹتی ہے۔
زندگی ایک دریا ہے
اسے تیرنا آ جائے تو ہر موج مددگار ہے۔
جب بچہ زندگی کے طور طریقے سیکھ لے،
تو پھر چاہے وہ طبیب ہو، معمار ہو، معلم ہو یا تاجر
ہر شعبہ اس کے لیے عبادت بن جاتا ہے۔
لیکن شرطِ اوّل یہی ہے کہ انسان بنے، انسان رہے، انسان جیے۔
کہ انسانیت کے بغیر نہ علم مفید ہے، نہ دولت پرکشش۔
سب کچھ فانی ہے، مگر اخلاقِ حمیدہ باقی ہیں۔
