الانتخابِ پاکستان — ۲۰۲۴ء
میں، ایک ادنیٰ خادمِ علم و ادب، بطورِ معلمِ کالج، صدقِ دل سے گواہی دیتا ہوں کہ پنجابِ دلنواز کے گوشے گوشے میں میرے رفیقانِ درس و تدریس نے دیانت و شفافیت کی ایسی مثال قائم کی ہے، جس پر زمانہ ناز کرے۔
ہمارے ہاتھوں میں بندوق نہیں، قلم ہے؛ ہمارے پاس لشکر نہیں، اخلاق و علم کی دولت ہے۔ اے اہلِ وطن! دیکھ لو کہ استاد آج بھی اُس چراغِ صداقت کا نگہبان ہے جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑتی۔
ہم نے فارم ۴۵ ایسے بھرے، جیسے کاتبِ تقدیر اپنی پیشانی پر ایمان لکھتا ہے۔ تین دن دھوپ اور گرد میں خوار ہوئے، نہ آرام ملا نہ شکایت کی۔ کہیں گریبان پکڑا گیا، کہیں طعن و تشنیع ہوئی، مگر ہم نے عزم و ثبات کا دامن نہ چھوڑا۔ کیونکہ ہمارا مقصد اقتدار نہیں، امانت ہے؛ ہمارا فخر علم ہے، اور ہمارا ہتھیار کتاب کی روشنی۔
ہم انبیا کے وارث ہیں، دلوں میں محبت اور پیشانیوں پر خلوص لیے ہوئے۔ ہم نے پورے ملک میں دیانت کی ایسی روشنی پھیلائی کہ فرشتے بھی گواہی دیں۔
دیکھو، میری آنکھیں اشکبار ہیں، دل شکستہ ہے، مگر ضمیر مطمئن ہے۔ قلم و کتاب میرا زیور ہیں، صداقت و دیانت میری جیت۔
اے اہلِ وطن! دیکھو استاد کا وقار، اس درویش کا چلن، اس ملنگ کا عمل۔
ہمیں رسوا نہ کرو۔ وہی نتائج ظاہر کرو جو ہم نے امانت داری سے رقم کیے۔ فوج کے جوان، پولیس کے محافظ، ریسکیو ۱۱۲۲ کے ہیروز — سب تحسین و عزت کے مستحق ہیں، کہ انہوں نے اپنے فرض کو عبادت جانا۔
اے معاشرے کے معزز ارکان! استاد تمہیں پکار رہا ہے —
ہم نے روشنی کا رستہ دکھا دیا۔ اب بتاؤ، کوئی ادارہ ایسا ہے جس نے اپنے کردار کو اتنی دیانت سے نبھایا ہو؟
ہم کمزور سہی، مگر دل کے جری ہیں؛ غریب سہی، مگر غیرت مند ہیں۔ استاد کل بھی معتبر تھا، آج بھی ہے، اور ان شاءاللہ ہمیشہ رہے گا۔
خدا اس ارضِ پاک کی حفاظت کرے۔
اے اہلِ اقتدار! یاد رکھو، تم میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی استاد رہا ہوگا۔ اس کے چہرے کے صدقے اس ملک کو جینے دو۔
اپنی خود غرضی، اپنی انا، اور اقتدار کے خمار میں اس مملکتِ خداداد کو رسوائی کی راہوں پر مت ڈالو۔
دنیا ہماری حرکات پر ہنس رہی ہے، اور ہم تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
افسوس! اگر مقصد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی تھا، تو پھر اس مقروض قوم کے اربوں روپے کیوں ضائع کیے گئے؟
کیوں عوام کو قطاروں میں ذلیل کر کے آخر وہی نتیجہ دیا گیا جو اشرافیہ کے دل کو بھایا؟
یہ جشن، یہ حلف، یہ تمسخرِ جمہور — کیا ضروری تھے؟
سو فیصد جیتنے والوں کو راتوں رات ہرا دینا جمہوریت نہیں، بے حسی کی تماش گاہ ہے۔
“دھاندلی” چھوٹا لفظ ہے — یہ تو ڈکیتیِ امانت ہے۔
ہم نے ایمان داری سے ووٹ گنے، فارم ۴۵ بھرے، مگر جب دیانت دار ہاتھوں کی محنت کو جھٹلایا گیا، تو دراصل پاکستان کے بانیوں کے خوابوں کو جھٹلایا گیا۔
کاش وہ نفوسِ قدسی آج ہوتے، تو یہ حال دیکھ کر حیا سے زمین میں سما جاتے۔
چند مفاد پرست گھرانوں نے دولت و اقتدار کے نشے میں پوری قوم کا سودا کر لیا۔
خدا کی قسم، دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اے میرے سیاستدانوں! اے میرے محافظوں! تم آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہو؟
کیا یہ کہ اس ملک میں ایمانداری جرم ہے؟
کیا یہ کہ جس کے پاس لاٹھی ہے، وہی قانون ہے؟
کیا یہ کہ یہ وطن صرف امراء کا ہے اور غریب کا وجود جرم؟
کیا یہ کہ نوجوان اپنے خواب بیچ کر دیس چھوڑ جائیں؟
جب حکمران چور ہوں، تو رعایا کے دلوں میں بھی ڈاکہ زنی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔
جو اقتدار چور دروازے سے آتا ہے، وہ عزت کے دروازے سے نکلتا ہے۔
غلامی صرف جسم کی نہیں ہوتی — سوچ کی غلامی سب سے بڑی قید ہے۔
غلام چاہے تخت پر بیٹھ جائے، اس کی نظر کبھی افق تک نہیں جاتی۔
اور کیا خوب کہا گیا —
“جوانی اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے لیے پاکستان سے بہتر کوئی ملک نہیں۔”
(نوٹ: یہ تحریر ایک استادِ محترم کی گواہی اور دل کا فریاد نامہ ہے، جو الیکشن ۲۰۲۴ء میں اپنی امانت ادا کر کے لوٹا ہے۔)
